کچھ کلام تو کر چاہے برساتِ الزام ہی کر
کچھ کھیل تو کھیل چاہے فریب ہی کر
سرے محفل چھیڑ بات ہمارے عشق کی
تعریف نہ سہی، کوئی طنز ہی کر
نا جان لے ہمارے دشمنوں کی، جلا ہی دے
نا مداح بن، سامنے انکے میرا نام ادا ہی کر
نہ مانگ ہمیں ہاتھ پھیلا کر خدا سے
چھپ کر کسی کونے میں، عشق کی فریاد ہی کر
نا بجا ہمارے پیار کی پیاس ظالم
کسی پیاسے پرندے کی خاطر پانی رکھ دیا ہی کر
نا سن میری گذارشیں، نا کر پوری التجا خیامٓ
کوئی اپنی حسرت، کوئی خواہش بیان ہی کر