جیتی ہوئی تقدیر کے ہم ہارے ہوئے دوست ۔ ۔ ۔

جیتی ہوئی تقدیر کے ہم ہارے ہوئے دوست
تیز برسات کے ہم جلائے ہوئے دوست

ہمیں مت ڈراؤ صحرا کی تپش سے
بہتی گنگا کے ہم پیاسے رہے ہوئے دوست

نہیں لگتا ہمیں ڈر اب جنگلی درندوں سے
جب انسان، انسانی خون کے پیاسے ہوئے دوست

تیز آندھی سے خوف کسے آئے گا یہاں
پودے گلشن کے بادِ صبا کے اکھاڑے ہوئے دوست

اڑ ہی جائیں گے سب پرندے اک روز
کاغذ کے پھول یہاں باغباں کے لگائے ہوئے دوست

کون بدلے گا؟ کیسے بدلے گا تقدیر خیامٓ
آنکھیں تو کھلی ہیں، ضمیر سوئے ہوئے دوست ۔ ۔ ۔

Leave a comment