کچھ اس طرح بدلی ریت فراقِ یار کے بعد
عجب ہی موسمِ دل کی حالت بدلتی رہی
مٹ گئی پیاس زمین کی ہر بارش کے کے بعد
تپشِ ہجر بڑھتی رہی، جب جب برسات ہوتی رہی
رنگا رنگ پھول کھلے آغازِ بہار کے بعد
مگر خزاں گلشنِ دل میں طول پکڑتی رہی
دہکتا صحرا بھی سیراب ہوا ساون کے بعد
دشتِ محبت کی پیاس مگر بڑہتی رہی
بے حس سے ہو گئے موسموں سے ہم تیرے جانے کے بعد
نا جانے کب خیامٓ، گرمی جاتی رہی، سردی آتی رہی ۔ ۔ ۔
