بارش ہے، ٹھنڈی ہوا ہے اور حسین موسم
تم بیٹھے بھیگ رہے ہو وہاں اور یہاں اکیلے ہم
کیوں بضد ہو؟ بار بار بلاتے ہو اپنے پاس
دیکھو بہت قاتل ہے ہوا اور خراب ہے موسم
قطرہ قطرہ بارش کا لگا رہا ہے تن میں آگ
کہیں اس رومانوی موسم میں نہ رنگ جائیں ہم
کہیں یہ مدہوش کر دینے والا موسم نہ بن جائے بہانہ
لپیٹ میں آئےان شرارتی ہواؤں میں خراب نہ ہوجائیں ہم
خاموش کیوں ہو گئے؟ کچھ تو بات کرو اب
مدہوشی میں نہ مل جائیں آنکھیں کہیں اور نہ گم ہو جائیں ہم
نا ہو ختم شرم و حیا، نا گریں اپنی ہی نظروں میں ہم
سنو خیامٓ! فون بند کرو، اپنے اپنے گھر ہی سو جائیں ہم
بارش ہے، ٹھنڈی ہوا ہے اور حسین ہے موسم۔ ۔ ۔
